اٹھا کے در سے سر رہ بٹھا دیا ہے مجھے
مرے سوال سے پاگل بنا دیا ہے مجھے
کچھ اس طرح سے کہا مجھ سے بیٹھنے کے لیے
کہ جیسے بزم سے اس نے اٹھا دیا ہے مجھے
نہ خود ہی چین سے بیٹھے نہ مجھ کو بیٹھنے دے
مرے خدا نے ستارہ بھی کیا دیا ہے مجھے
مری سمائی نہ صحرا میں ہے نہ گھر میں ہے
نیا یہ مژدۂ وحشت سنا دیا ہے مجھے
میں اپنے ہجر میں تھا مبتلا ازل سے مگر
ترے وصال نے مجھ سے ملا دیا ہے مجھے
غزل
اٹھا کے در سے سر رہ بٹھا دیا ہے مجھے
میر احمد نوید