EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

رات اس بزم میں تصویر کے مانند تھے ہم
ہم سے پوچھے تو کوئی شمع کا جلنا کیا تھا

میر احمد نوید




زخم تلاش میں ہے نہاں مرہم دلیل
تو اپنا دل نہ ہار محبت بحال رکھ

میر احمد نوید




اب تو باتیں بھی ہو گئیں موقوف
ارنی ہے نہ لن ترانی ہے

میر علی اوسط رشک




حد سے گزرا جب انتظار ترا
موت کا ہم نے انتظار کیا

میر علی اوسط رشک




سنا رہا ہوں نکیرین کو فسانۂ ہجر
سوال ان کے جدا ہیں مرے جواب جدا

میر علی اوسط رشک




عاشق کو دیکھتے ہیں دوپٹے کو تان کر
دیتے ہیں ہم کو شربت دیدار چھان کر

میر انیس




انیسؔ آساں نہیں آباد کرنا گھر محبت کا
یہ ان کا کام ہے جو زندگی برباد کرتے ہیں

میر انیس