چراغ ہائے تکلف بجھا دیے گئے ہیں
اٹھاؤ جام کہ پردے اٹھا دیے گئے ہیں
اب اس کو دید کہیں یا اسے کہیں دیدار
ہمارے آگے سے جو ہم ہٹا دیے گئے ہیں
اب اس مقام پہ ہے یہ جنوں کہ ہوش نہیں
مٹا دیے گئے ہیں یا بنا دیے گئے ہیں
یہ راز مرنے سے پہلے تو کھل نہیں سکتا
سلا دیے گئے ہیں یا جگا دیے گئے ہیں
جو مل گئے تو تونگر نہ مل سکے تو گدا
ہم اپنی ذات کے اندر چھپا دیے گئے ہیں
چراغ بزم ہیں ہم راز دار صحبت بزم
بجھا دیے گئے ہیں یا جلا دیے گئے ہیں
غزل
چراغ ہائے تکلف بجھا دیے گئے ہیں
میر احمد نوید