خود سے گزرے تو قیامت سے گزر جائیں گے ہم
یعنی ہر حال کی حالت سے گزر جائیں گے ہم
عالم وسعت امکاں نظر آئے گا ہمیں
یعنی ہر دوری و قربت سے گزر جائیں گے ہم
ختم ہو جائے گی سب کشمکش حرف و عدد
یعنی ہر منفی و مثبت سے گزر جائیں گے ہم
نہ مکاں ہوگا وجود اور نہ زماں ہوگا عدم
یعنی ہر تنگی و وسعت سے گزر جائیں گے ہم
عالم ہو دل بینا کو نظر آئے گا
حسرت و وحشت و حیرت سے گزر جائیں گے ہم
غزل
خود سے گزرے تو قیامت سے گزر جائیں گے ہم
میر احمد نوید