EN हिंदी
پیش زمیں رہوں کہ پس آسماں رہوں | شیح شیری
pesh-e-zamin rahun ki pas-e-asman rahun

غزل

پیش زمیں رہوں کہ پس آسماں رہوں

میر احمد نوید

;

پیش زمیں رہوں کہ پس آسماں رہوں
رہتا ہوں اپنے ساتھ میں چاہے جہاں رہوں

کیسا جہاں کہاں کا مکاں کون لا مکاں
یعنی اگر کہیں نہ رہوں تو کہاں رہوں

اے عشق میرا ہونا نہ ہونا ہے مجھ تلک
اب میں نشان کھینچوں کہ میں بے نشاں رہوں

کیا ڈھونڈھتا رہوں میں یوں ہی دہر میں ثبات
کیا مرگ ناگہاں کے لیے ناگہاں رہوں

خاکستر ستارہ ہے آئندۂ نمو
بہتر یہی ہے میں کسی جانب رواں رہوں