پیش زمیں رہوں کہ پس آسماں رہوں
رہتا ہوں اپنے ساتھ میں چاہے جہاں رہوں
کیسا جہاں کہاں کا مکاں کون لا مکاں
یعنی اگر کہیں نہ رہوں تو کہاں رہوں
اے عشق میرا ہونا نہ ہونا ہے مجھ تلک
اب میں نشان کھینچوں کہ میں بے نشاں رہوں
کیا ڈھونڈھتا رہوں میں یوں ہی دہر میں ثبات
کیا مرگ ناگہاں کے لیے ناگہاں رہوں
خاکستر ستارہ ہے آئندۂ نمو
بہتر یہی ہے میں کسی جانب رواں رہوں
غزل
پیش زمیں رہوں کہ پس آسماں رہوں
میر احمد نوید