کیوں سا رہتا ہے کیا سا رہتا ہے
دل جو کھویا ہوا سا رہتا ہے
ایک سناہٹے کا سینے میں
بھاگنا دوڑنا سا رہتا ہے
میں کہیں آؤں میں کہیں جاؤں
وقت جیسے رکا سا رہتا ہے
صبح کا دل کہیں نہیں لگتا
شام کا دم گھٹا سا رہتا ہے
دل کے آنے کا دل کے جانے کا
ایک دھڑکا لگا سا رہتا ہے
اے خلش بول کیا یہی ہے خدا
یہ جو دل میں خلا سا رہتا ہے
کن ہے درکار اس کے ہونے کو
کام وہ جو ذرا سا رہتا ہے
غزل
کیوں سا رہتا ہے کیا سا رہتا ہے
میر احمد نوید