یہ عمر صد بلا جو اپنے ہی سر گئی ہے
تھوڑی گزار لیں گے تھوڑا گزر گئی ہے
یا موند لیں ہیں آنکھیں یا مند گئیں ہیں آنکھیں
تجھ پر پس تماشا کیا کیا گزر گئی ہے
ممکن نہیں ہے شاید دونوں کا ساتھ رہنا
تیری خبر جب آئی اپنی خبر گئی ہے
شور خزاں ہے گھر میں دیوار و بام و در میں
در پر سواری کل آ کر ٹھہر گئی ہے
معلوم ہی نہیں ہے کچھ فرق ہی نہیں ہے
یہ دن گزر گیا ہے یا شب گزر گئی ہے
ہر گل بدن کو تکنا آنکھوں سے چوم رکھنا
دیوانگی ہماری حد سے گزر گئی ہے
غزل
یہ عمر صد بلا جو اپنے ہی سر گئی ہے
میر احمد نوید