EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

وصل کا گل نہ سہی ہجر کا کانٹا ہی سہی
کچھ نہ کچھ تو مری وحشت کا صلہ دے مجھ کو

مرغوب علی




ہوا کے ساتھ سفر کا نہ حوصلہ تھا جسے
سبھی کو خوف اسی لمحۂ شرر سے تھا

مرغوب حسن




یہی بہت ہے کہ مٹی جڑوں سے لپٹی ہے
وگرنہ آج درختوں میں برگ و بار نہیں

مرغوب حسن




درد سر میں ہے کسے صندل لگانے کا دماغ
اس کا گھسنا اور لگانا درد سر یہ بھی تو ہے

معروف دہلوی




آنسو آنسو جس نے دریا پار کئے
قطرہ قطرہ آب میں الجھا بیٹھا ہے

مشکور حسین یاد




اعلیٰ میں تو ادنیٰ کے حوالے ہی حوالے
ادنیٰ ہی میں اعلیٰ کا حوالہ نہیں ملتا

مشکور حسین یاد




بہتر ہے کہ اب خود سے جدا ہو کے بھی دیکھیں
دریا میں تو دریا کا حوالہ نہیں ملتا

مشکور حسین یاد