وصل کا گل نہ سہی ہجر کا کانٹا ہی سہی
کچھ نہ کچھ تو مری وحشت کا صلہ دے مجھ کو
مرغوب علی
ہوا کے ساتھ سفر کا نہ حوصلہ تھا جسے
سبھی کو خوف اسی لمحۂ شرر سے تھا
مرغوب حسن
یہی بہت ہے کہ مٹی جڑوں سے لپٹی ہے
وگرنہ آج درختوں میں برگ و بار نہیں
مرغوب حسن
درد سر میں ہے کسے صندل لگانے کا دماغ
اس کا گھسنا اور لگانا درد سر یہ بھی تو ہے
معروف دہلوی
آنسو آنسو جس نے دریا پار کئے
قطرہ قطرہ آب میں الجھا بیٹھا ہے
مشکور حسین یاد
اعلیٰ میں تو ادنیٰ کے حوالے ہی حوالے
ادنیٰ ہی میں اعلیٰ کا حوالہ نہیں ملتا
مشکور حسین یاد
بہتر ہے کہ اب خود سے جدا ہو کے بھی دیکھیں
دریا میں تو دریا کا حوالہ نہیں ملتا
مشکور حسین یاد

