جب دیدۂ بینا کا حوالہ نہیں ملتا
پھر کوئی بھی دنیا کا حوالہ نہیں ملتا
وہ عالم بالا تو ترے دل میں مکیں ہے
جس عالم بالا کا حوالہ نہیں ملتا
اعلیٰ میں تو ادنیٰ کے حوالے ہی حوالے
ادنیٰ ہی میں اعلیٰ کا حوالہ نہیں ملتا
جس جان تمنا کے حوالے ہے مری جاں
اس جان تمنا کا حوالہ نہیں ملتا
یہ روح سوالات ہے یا کوئی مناجات
کیا ملتا ہے بس کیا کا حوالہ نہیں ملتا
ہم آج ہیں اور آج تو ہے کل سے بھی آگے
اچھا ہے جو فردا کا حوالہ نہیں ملتا
پیدا ہے تو پنہاں کے حوالوں سے بھرا ہے
پنہاں سے تو پیدا کا حوالہ نہیں ملتا
تو اپنے حوالے کی ہوا کھا کے ہی خوش رہ
ہر آن حوالہ کا حوالہ نہیں ملتا
بہتر ہے کہ اب خود سے جدا ہو کے بھی دیکھیں
دریا میں تو دریا کا حوالہ نہیں ملتا
مشکورؔ مری جان چلے آئے ہو تنہا
تنہا کو تو تنہا کا حوالہ نہیں ملتا
غزل
جب دیدۂ بینا کا حوالہ نہیں ملتا
مشکور حسین یاد