وہ پیچ و خم جو الگ میری رہ گزر سے تھا
مجھے خبر ہے نمایاں مرے سفر سے تھا
گزر گیا تھا کسی راز کی طرح وہ نقش
دھلا ہوا جو مری خاک خیر و شر سے تھا
ہوا کے ساتھ سفر کا نہ حوصلہ تھا جسے
سبھی کو خوف اسی لمحۂ شرر سے تھا
کنار شام افق تھا وہی مگر ویران
خلا کے سلسلۂ لمس کے اثر سے تھا
رکا ہوا تھا خموشی کی تہ میں سیل کوئی
خطر اسے بھی مری طرح بحر و بر سے تھا
مری نگاہ میں حائل تھے برگ و بار خزاں
گھرا ہوا میں عجب سایۂ شجر سے تھا
غزل
وہ پیچ و خم جو الگ میری رہ گزر سے تھا
مرغوب حسن