کیا غرض ہم کو وہاں اب کوئی بھی آباد ہو
ہم تو اس بستی سے گھر اپنا اٹھا کر لے گئے
مسعودہ حیات
تمام عمر بھٹکتے رہے جو راہوں میں
دکھا رہے ہیں وہی آج راستا مجھ کو
مسعودہ حیات
تم ہمیں حرف غلط کہہ کے مٹا بھی نہ سکے
اب بھی ہر لب پہ سر بزم ہے چرچا اپنا
مسعودہ حیات
تمہارے ملنے کی ہر آس آج ٹوٹ گئی
تمہیں بتاؤ کہ اب کس طرح جیا جائے
مسعودہ حیات
یہ کیا کہ آج کوئی نام تک نہیں لیتا
وہ دن بھی تھے کہ ہر اک لب پہ بات اپنی تھی
مسعودہ حیات
معصومؔ عجب ہے حال چمن ہر شعلے کا یہاں بدلا ہے چلن
شاخوں کو جلایا جاتا ہے طائر کو ستایا جاتا ہے
معصوم شرقی
دل کے لٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے
نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی
مسرور انور

