EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کیا غرض ہم کو وہاں اب کوئی بھی آباد ہو
ہم تو اس بستی سے گھر اپنا اٹھا کر لے گئے

مسعودہ حیات




تمام عمر بھٹکتے رہے جو راہوں میں
دکھا رہے ہیں وہی آج راستا مجھ کو

مسعودہ حیات




تم ہمیں حرف غلط کہہ کے مٹا بھی نہ سکے
اب بھی ہر لب پہ سر بزم ہے چرچا اپنا

مسعودہ حیات




تمہارے ملنے کی ہر آس آج ٹوٹ گئی
تمہیں بتاؤ کہ اب کس طرح جیا جائے

مسعودہ حیات




یہ کیا کہ آج کوئی نام تک نہیں لیتا
وہ دن بھی تھے کہ ہر اک لب پہ بات اپنی تھی

مسعودہ حیات




معصومؔ عجب ہے حال چمن ہر شعلے کا یہاں بدلا ہے چلن
شاخوں کو جلایا جاتا ہے طائر کو ستایا جاتا ہے

معصوم شرقی




دل کے لٹنے کا سبب پوچھو نہ سب کے سامنے
نام آئے گا تمہارا یہ کہانی پھر سہی

مسرور انور