جس کو دیکھو خواب میں الجھا بیٹھا ہے
اپنے ہی پایاب میں الجھا بیٹھا ہے
آنسو آنسو جس نے دریا پار کئے
قطرہ قطرہ آب میں الجھا بیٹھا ہے
بھول کے جوہری اپنے لعل و جواہر کو
شوق در نایاب میں الجھا بیٹھا ہے
وہ جو بگولا بن کر اڑتا پھرتا تھا
دھاگا دھاگا سراب میں الجھا بیٹھا ہے
نصف نہار پہ یوں لگتا ہے سورج بھی
وقت کی آب و تاب میں الجھا بیٹھا ہے
یاد کتاب شوق نہ ہوگی ختم کبھی
انساں اک اک باب میں الجھا بیٹھا ہے
غزل
جس کو دیکھو خواب میں الجھا بیٹھا ہے
مشکور حسین یاد