EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہمیں تو یاد بہت آیا موسم گل میں
وہ سرخ پھول سا چہرہ کھلا ہوا اب کے

مرغوب علی




حقیقی چہرہ کہیں پر ہمیں نہیں ملتا
سبھی نے چہرہ پہ ڈالے ہیں مصلحت کے نقاب

مرغوب علی




کرسی میز کتابیں؟ بستر انجانے سے تکتے ہیں
دیر سے اپنے گھر جائیں تو سب کچھ یوں ہی لگتا ہے

مرغوب علی




میں اس کو بھول جاؤں رات یہ مانگی دعا میں نے
کروں کیا میں اگر میری دعا واپس پلٹ آئے

مرغوب علی




مجھ کو برباد خود ہی ہونا تھا
تم پہ الزام بے سبب آئے

مرغوب علی




رات پڑتے ہی ہر اک روز ابھر آتی ہے
کس کے رونے کی صدا ذات کے سناٹے میں

مرغوب علی




سب ممکن تھا پیار محبت ہنستے چہرے خواب نگر
لیکن ایک انا نے کتنے بھولے دن برباد کئے

مرغوب علی