EN हिंदी
خلا کا خوف پس پردۂ غبار نہیں | شیح شیری
KHala ka KHauf pas-e-parda-e-ghubar nahin

غزل

خلا کا خوف پس پردۂ غبار نہیں

مرغوب حسن

;

خلا کا خوف پس پردۂ غبار نہیں
حصار خاک سے پھر بھی کوئی فرار نہیں

عبور کر لیں حدیں ہم نے نارسائی کی
مگر طوالت امکاں میں اختصار نہیں

یہی بہت ہے کہ مٹی جڑوں سے لپٹی ہے
وگرنہ آج درختوں میں برگ و بار نہیں

کہیں یہ سیل سفر رائیگاں نہ ثابت ہو
کہ جستجو کے شب و روز کا شمار نہیں

سمٹ رہے ہیں وہ اک ڈوبتے جزیرے میں
ابھی یہ راز کناروں پہ آشکار نہیں

زمیں کی خشک رگوں میں رواں جو رہتا تھا
کنار دشت ہوس اب وہ آب زار نہیں