EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل کے انگارے کو دہکاؤ کہ کچھ رات کٹے

مخدومؔ محی الدین




کیسے ہیں خانقاہ میں ارباب خانقاہ
کس حال میں ہے پیر مغاں دیکھتے چلیں

مخدومؔ محی الدین




کوہ غم اور گراں اور گراں اور گراں
غم زدو تیشے کو چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے

مخدومؔ محی الدین




منزلیں عشق کی آساں ہوئیں چلتے چلتے
اور چمکا ترا نقش کف پا آخر شب

مخدومؔ محی الدین




پھر چھڑی رات بات پھولوں کی
رات ہے یا برات پھولوں کی

مخدومؔ محی الدین




رات بھر درد کی شمع جلتی رہی
غم کی لو تھرتھراتی رہی رات بھر

مخدومؔ محی الدین




سانس رکتی ہے چھلکتے ہوئے پیمانے میں
کوئی لیتا تھا ترا نام وفا آخر شب

مخدومؔ محی الدین