وہ آ رہے ہیں سنبھل سنبھل کر نظارہ بے خود فضا جواں ہے
جھکی جھکی ہیں نشیلی آنکھیں رکا رکا دور آسماں ہے
مجروح سلطانپوری
زباں ہماری نہ سمجھا یہاں کوئی مجروحؔ
ہم اجنبی کی طرح اپنے ہی وطن میں رہے
مجروح سلطانپوری
آج ہو جانے دو ہر ایک کو بد مست و خراب
آج ایک ایک کو پلواؤ کہ کچھ رات کٹے
مخدومؔ محی الدین
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشم نم مسکراتی رہی رات بھر
مخدومؔ محی الدین
بزم سے دور وہ گاتا رہا تنہا تنہا
سو گیا ساز پہ سر رکھ کے سحر سے پہلے
مخدومؔ محی الدین
چشم و رخسار کے اذکار کو جاری رکھو
پیار کے نامے کو دہراؤ کہ کچھ رات کٹے
مخدومؔ محی الدین
دیپ جلتے ہیں دلوں میں کہ چتا جلتی ہے
اب کی دیوالی میں دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے
مخدومؔ محی الدین

