بڑھ گیا بادۂ گلگوں کا مزا آخر شب
اور بھی سرخ ہے رخسار حیا آخر شب
منزلیں عشق کی آساں ہوئیں چلتے چلتے
اور چمکا ترا نقش کف پا آخر شب
کھٹکھٹا جاتا ہے زنجیر در مے خانہ
کوئی دیوانہ کوئی آبلہ پا آخر شب
سانس رکتی ہے چھلکتے ہوئے پیمانے میں
کوئی لیتا تھا ترا نام وفا آخر شب
گل ہے قندیل حرم گل ہیں کلیسا کے چراغ
سوئے پیمانہ بڑھے دست دعا آخر شب
ہائے کس دھوم سے نکلا ہے شہیدوں کا جلوس
جرم چپ سر بہ گریباں ہے جفا آخر شب
اسی انداز سے پھر صبح کا آنچل ڈھلکے
اسی انداز سے چل باد صبا آخر شب
غزل
بڑھ گیا بادۂ گلگوں کا مزا آخر شب
مخدومؔ محی الدین