میرے ہی سنگ و خشت سے تعمیر بام و در
میرے ہی گھر کو شہر میں شامل کہا نہ جائے
مجروح سلطانپوری
مجھ سے کہا جبریل جنوں نے یہ بھی وحی الٰہی ہے
مذہب تو بس مذہب دل ہے باقی سب گمراہی ہے
مجروح سلطانپوری
مجھے یہ فکر سب کی پیاس اپنی پیاس ہے ساقی
تجھے یہ ضد کہ خالی ہے مرا پیمانہ برسوں سے
مجروح سلطانپوری
پارۂ دل ہے وطن کی سرزمیں مشکل یہ ہے
شہر کو ویران یا اس دل کو ویرانہ کہیں
مجروح سلطانپوری
رہتے تھے کبھی جن کے دل میں ہم جان سے بھی پیاروں کی طرح
بیٹھے ہیں انہیں کے کوچے میں ہم آج گنہ گاروں کی طرح
مجروح سلطانپوری
روک سکتا ہمیں زندان بلا کیا مجروحؔ
ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں
مجروح سلطانپوری
سیر ساحل کر چکے اے موج ساحل سر نہ مار
تجھ سے کیا بہلیں گے طوفانوں کے بہلائے ہوئے
مجروح سلطانپوری

