ہوں جو سارے دست و پا ہیں خوں میں نہلائے ہوئے
ہم بھی ہیں اے دل بہاراں کی قسم کھائے ہوئے
خبط ہے اے ہم نشیں عقل حریفان بہار
ہے خزاں ان کی انہیں آئینہ دکھلائے ہوئے
کیا ہے ذکر آتش و آہن کہ غداران گل
مارتے ہیں ہاتھ انگاروں پہ گھبرائے ہوئے
زندگی کی قدر سیکھی شکریہ تیغ ستم
ہاں ہمیں تھے کل تلک جینے سے اکتائے ہوئے
سیر ساحل کر چکے اے موج ساحل سر نہ مار
تجھ سے کیا بہلیں گے طوفانوں کے بہلائے ہوئے
ہے یہی اک کاروبار نغمہ و مستی کہ ہم
یا زمیں پر یا سر افلاک ہیں چھائے ہوئے
ساز اٹھایا جب تو گرماتے پھرے ذروں کے دل
جام ہاتھ آیا تو مہر و مہ کے ہمسائے ہوئے
دشت و در بننے کو ہیں مجروحؔ میدان بہار
آ رہی ہے فصل گل پرچم کو لہرائے ہوئے
غزل
ہوں جو سارے دست و پا ہیں خوں میں نہلائے ہوئے
مجروح سلطانپوری