سوئے مقتل کہ پئے سیر چمن جاتے ہیں
اہل دل جام بہ کف سر بہ کفن جاتے ہیں
آ گئی فصل جنوں کچھ تو کرو دیوانو
ابر صحرا کی طرف سایہ فگن جاتے ہیں
اس کو دیکھا نہیں تم نے کہ یہی کوچہ و راہ
شاخ گل شوخئ رفتار سے بن جاتے ہیں
وہ اگر بات نہ پوچھے تو کریں کیا ہم بھی
آپ ہی روٹھتے ہیں آپ ہی من جاتے ہیں
بلبلو اپنی نوا فیض ہے ان آنکھوں کا
جن سے ہم سیکھنے انداز سخن جاتے ہیں
جو ٹھہرتی تو ذرا چلتے صبا کے ہم راہ
یوں بھی ہم روز کہاں سوئے چمن جاتے ہیں
لٹ گیا قافلۂ اہل جنوں بھی شاید
لوگ ہاتھوں میں لیے تار رسن جاتے ہیں
روک سکتا ہمیں زندان بلا کیا مجروحؔ
ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں

غزل
سوئے مقتل کہ پئے سیر چمن جاتے ہیں
مجروح سلطانپوری