EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کہاں بچ کر چلی اے فصل گل مجھ آبلہ پا سے
مرے قدموں کی گلکاری بیاباں سے چمن تک ہے

مجروح سلطانپوری




کوئی ہم دم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا

مجروح سلطانپوری




کچھ بتا تو ہی نشیمن کا پتا
میں تو اے باد صبا بھول گیا

مجروح سلطانپوری




میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

مجروح سلطانپوری




میں کہ ایک محنت کش میں کہ تیرگی دشمن
صبح نو عبارت ہے میرے مسکرانے سے

مجروح سلطانپوری




مجروحؔ لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہ گار کی طرح

مجروح سلطانپوری




مجروحؔ قافلے کی مرے داستاں یہ ہے
رہبر نے مل کے لوٹ لیا راہزن کے ساتھ

مجروح سلطانپوری