کہاں بچ کر چلی اے فصل گل مجھ آبلہ پا سے
مرے قدموں کی گلکاری بیاباں سے چمن تک ہے
مجروح سلطانپوری
کوئی ہم دم نہ رہا کوئی سہارا نہ رہا
ہم کسی کے نہ رہے کوئی ہمارا نہ رہا
مجروح سلطانپوری
کچھ بتا تو ہی نشیمن کا پتا
میں تو اے باد صبا بھول گیا
مجروح سلطانپوری
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
مجروح سلطانپوری
میں کہ ایک محنت کش میں کہ تیرگی دشمن
صبح نو عبارت ہے میرے مسکرانے سے
مجروح سلطانپوری
مجروحؔ لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام
ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہ گار کی طرح
مجروح سلطانپوری
مجروحؔ قافلے کی مرے داستاں یہ ہے
رہبر نے مل کے لوٹ لیا راہزن کے ساتھ
مجروح سلطانپوری

