اہل طوفاں آؤ دل والوں کا افسانہ کہیں
موج کو گیسو بھنور کو چشم جانانہ کہیں
دار پر چڑھ کر لگائیں نعرۂ زلف صنم
سب ہمیں باہوش سمجھیں چاہے دیوانہ کہیں
یار نکتہ داں کدھر ہے پھر چلیں اس کے حضور
زندگی کو دل کہیں اور دل کو نذرانہ کہیں
تھامیں اس بت کی کلائی اور کہیں اس کو جنوں
چوم لیں منہ اور اسے انداز رندانہ کہیں
سرخی مے کم تھی میں نے چھو لیے ساقی کے ہونٹ
سر جھکا ہے جو بھی اب ارباب مے خانہ کہیں
تشنگی ہی تشنگی ہے کس کو کہیے مے کدہ
لب ہی لب ہم نے تو دیکھے کس کو پیمانہ کہیں
پارۂ دل ہے وطن کی سرزمیں مشکل یہ ہے
شہر کو ویران یا اس دل کو ویرانہ کہیں
اے رخ زیبا بتا دے اور ابھی ہم کب تلک
تیرگی کو شمع تنہائی کو پروانہ کہیں
آرزو ہی رہ گئی مجروحؔ کہتے ہم کبھی
اک غزل ایسی جسے تصویر جانانہ کہیں
غزل
اہل طوفاں آؤ دل والوں کا افسانہ کہیں
مجروح سلطانپوری