اس باغ میں وہ سنگ کے قابل کہا نہ جائے
جب تک کسی ثمر کو مرا دل کہا نہ جائے
شاخوں پہ نوک تیغ سے کیا کیا کھلے ہیں پھول
انداز لالہ کاریٔ قاتل کہا نہ جائے
کس کے لہو کے رنگ ہیں یہ خار شوخ رنگ
کیا گل کتر گئی رہ منزل کہا نہ جائے
باراں کے منتظر ہیں سمندر پہ تشنہ لب
احوال میزبانیٔ ساحل کہا نہ جائے
میرے ہی سنگ و خشت سے تعمیر بام و در
میرے ہی گھر کو شہر میں شامل کہا نہ جائے
زنداں کھلا ہے جب سے ہوئے ہیں رہا اسیر
ہر گام ہے وہ شور سلاسل کہا نہ جائے
ہم اہل عشق میں نہیں حرف گنہ سے کم
وہ حرف شوق جو سر محفل کہا نہ جائے
جس ہاتھ میں ہے تیغ جفا اس کا نام لو
مجروحؔ سے تو سائے کو قاتل کہا نہ جائے
غزل
اس باغ میں وہ سنگ کے قابل کہا نہ جائے
مجروح سلطانپوری