EN हिंदी
اس باغ میں وہ سنگ کے قابل کہا نہ جائے | شیح شیری
is bagh mein wo sang ke qabil kaha na jae

غزل

اس باغ میں وہ سنگ کے قابل کہا نہ جائے

مجروح سلطانپوری

;

اس باغ میں وہ سنگ کے قابل کہا نہ جائے
جب تک کسی ثمر کو مرا دل کہا نہ جائے

شاخوں پہ نوک تیغ سے کیا کیا کھلے ہیں پھول
انداز لالہ کاریٔ قاتل کہا نہ جائے

کس کے لہو کے رنگ ہیں یہ خار شوخ رنگ
کیا گل کتر گئی رہ منزل کہا نہ جائے

باراں کے منتظر ہیں سمندر پہ تشنہ لب
احوال میزبانیٔ ساحل کہا نہ جائے

میرے ہی سنگ و خشت سے تعمیر بام و در
میرے ہی گھر کو شہر میں شامل کہا نہ جائے

زنداں کھلا ہے جب سے ہوئے ہیں رہا اسیر
ہر گام ہے وہ شور سلاسل کہا نہ جائے

ہم اہل عشق میں نہیں حرف گنہ سے کم
وہ حرف شوق جو سر محفل کہا نہ جائے

جس ہاتھ میں ہے تیغ جفا اس کا نام لو
مجروحؔ سے تو سائے کو قاتل کہا نہ جائے