آ نکل کے میداں میں دو رخی کے خانے سے
کام چل نہیں سکتا اب کسی بہانے سے
عہد انقلاب آیا دور آفتاب آیا
منتظر تھیں یہ آنکھیں جس کی اک زمانے سے
اب زمین گائے گی ہل کے ساز پر نغمے
وادیوں میں ناچیں گے ہر طرف ترانے سے
اہل دل اگائیں گے خاک سے مہ و انجم
اب گہر سبک ہوگا جو کے ایک دانے سے
منچلے بنیں گے اب رنگ و بو کے پیراہن
اب سنور کے نکلے گا حسن کارخانے سے
عام ہوگا اب ہم دم سب پہ فیض فطرت کا
بھر سکیں گے اب دامن ہم بھی اس خزانے سے
میں کہ ایک محنت کش میں کہ تیرگی دشمن
صبح نو عبارت ہے میرے مسکرانے سے
خودکشی ہی راس آئی دیکھ بد نصیبوں کو!
خود سے بھی گریزاں ہیں بھاگ کر زمانے سے
اب جنوں پہ وہ ساعت آ پڑی کہ اے مجروحؔ
آج زخم سر بہتر دل پہ چوٹ کھانے سے
غزل
آ نکل کے میداں میں دو رخی کے خانے سے
مجروح سلطانپوری