مجھی سے پوچھ رہا تھا مرا پتا کوئی
بتوں کے شہر میں موجود تھا خدا کوئی
خموشیوں کی چٹانوں کو توڑنے کے لیے
کسی کے پاس نہیں تیشۂ صدا کوئی
درخت ہاتھ اٹھا کر سلام کرتے تھے
مرے جنوں کا مبارک تھا مرحلہ کوئی
سمجھ سکا نہ مگر کوئی پتھروں کی زباں
ہر ایک لمحہ لگا بولتا ہوا کوئی
یہ بند لب ہیں کہ کوئی کھلی ہوئی سی کتاب
مرے سوال پہ اس دم تو بولتا کوئی
ورق پہ رات کے لکھی ہے صبح کی تحریر
یہ ایک وقت ہے بے رنگ و نور سا کوئی
نہ حرف حرف ہوا عکس گفتگو میرا
سمجھنا چاہو تو لے آؤ آئینہ کوئی
اک آنسوؤں کا سمندر تھا جل پری کا لباس
ملا تو ایسے ملا پیکر وفا کوئی
ہر ایک ذہن میں اپنے ہی بند ہے ماجدؔ
فضا کے خول سے باہر ہے راستہ کوئی

غزل
مجھی سے پوچھ رہا تھا مرا پتا کوئی
ماجد الباقری