آنسوؤں کی ایک چادر تن گئی ہے
دیکھنے میں روشنی ہی روشنی ہے
سوکھے پتے سب اکٹھے ہو گئے ہیں
راستے میں ایک دیوار آ گئی ہے
غم کا ریلا ذہن ہی کو لے اڑا ہے
سوچئے تو آندھیوں کی کیا کمی ہے
چلّو چلّو روشنی کو پی رہا ہوں
موج دریا قطرہ قطرہ چاندنی ہے
رات میں دھنکا ہوا سورج پڑا تھا
دن میں ماجدؔ دھوپ کالی ہو گئی ہے

غزل
آنسوؤں کی ایک چادر تن گئی ہے
ماجد الباقری