EN हिंदी
آنسوؤں کی ایک چادر تن گئی ہے | شیح شیری
aansuon ki ek chadar tan gai hai

غزل

آنسوؤں کی ایک چادر تن گئی ہے

ماجد الباقری

;

آنسوؤں کی ایک چادر تن گئی ہے
دیکھنے میں روشنی ہی روشنی ہے

سوکھے پتے سب اکٹھے ہو گئے ہیں
راستے میں ایک دیوار آ گئی ہے

غم کا ریلا ذہن ہی کو لے اڑا ہے
سوچئے تو آندھیوں کی کیا کمی ہے

چلّو چلّو روشنی کو پی رہا ہوں
موج دریا قطرہ قطرہ چاندنی ہے

رات میں دھنکا ہوا سورج پڑا تھا
دن میں ماجدؔ دھوپ کالی ہو گئی ہے