چاند کی کرنوں کی چادر نے سب کے روپ چھپائے ہیں
آنکھوں والے سب ہی جا کر نگری سے لوٹ آئے ہیں
تاریکی کا نام ہو روشن آگے پیچھے ایک دیا
روشنیوں کے ویرانے میں آگے پیچھے سائے ہیں
کرنوں کے دھاگوں کو سمیٹے اون کا گولا ڈوب گیا
ننگی دھرتی لمبی راتیں دیکھ کے ہم تھرائے ہیں
جھاڑی جھاڑی سونگھ رہا ہوں کوئی بھی خرگوش نہیں
کتوں جیسے پیر کہاں سے ہر جھاڑی تک آئے ہیں
لوہے اور پتھر کی ساری تصویریں مٹ جائیں گی
کاغذ کے پردے پر ہم نے سب کے روپ جمائے ہیں
گھنٹی کی آوازیں سچ ہیں چیخ پہ کوئی کان نہ دو
لوہے کے تابوت میں ماجدؔ انسانوں کے سائے ہیں

غزل
چاند کی کرنوں کی چادر نے سب کے روپ چھپائے ہیں
ماجد الباقری