EN हिंदी
تو ہی اس شہر میں ہے ایک شناسا میری | شیح شیری
tu hi is shahr mein hai ek shanasa meri

غزل

تو ہی اس شہر میں ہے ایک شناسا میری

لطف الرحمن

;

تو ہی اس شہر میں ہے ایک شناسا میری
اب کہیں لے کے مجھے چل شب تنہا میری

لے گیا ساتھ ہی اپنے وہ مرے خواب و خیال
زندگی اب بھی وہی ہے تہہ و بالا میری

اس کی آنکھوں میں بھی پہچان کے ڈورے نہ ملے
دل کی دھڑکن بھی سلامت تھی سراپا میری

میں کہ اپنا ہی پتہ پوچھ رہا ہوں سب سے
کھو گئی جانے کہاں عمر گزشتہ میری

چاندنی جس کے سراپا میں سمٹ آئی تھی
آنکھ اب بھی ہے اسی حسن کی جویا میری

اب بھی اک بھیڑ ہے یوسف کے خریداروں کی
اب بھی استادہ ہے بازار میں دنیا میری

دوش پر سر کی جگہ طرۂ دستار ملے
آنکھ اب لے لے کوئی مجھ سے خدا یا میری