بجھا چکی ہے ہوا جس کو وہ دیا بھی میں
مگر یہ دیکھ بہت دیر تک جلا بھی میں
طویل دھوپ کی شدت ہواؤں کی یورش
سہی بھی میں نے سر دشت غم کھلا بھی میں
ملے قیام کے احکام بھی مجھی کو یہاں
مسافتوں کا پرستار ایک تھا بھی میں
مرے نصیب میں پت جھڑ کے راستوں کا سفر
سدا بہار دیاروں سے آشنا بھی میں
مجھی سے آئی تھی ملنے اداس چاندنی رات
اگر یہ جانتا ہوتا تو جاگتا بھی میں
مری طرف تھیں کبھی بارشیں بھی پھولوں کی
حصار سنگ و صدا میں گھرا ہوا بھی میں
یہ سوچتا ہوں کہوں خود کو قاسمیؔ! میں کیا؟
سکوت بھی مرے اندر بہت صدا بھی میں

غزل
بجھا چکی ہے ہوا جس کو وہ دیا بھی میں
ایم آر قاسمی