میں دور ہو کے بھی اس سے کبھی جدا نہ ہوا
کہ اس کے بعد کسی کا بھی آشنا نہ ہوا
تمام عمر مرا مجھ سے اختلاف رہا
گلہ نہ کر جو کبھی تیرا ہم نوا نہ ہوا
وہ جاتے جاتے دلاسے بھی دے گیا کیا کیا
یہ اور بات کہ پھر اس سے رابطہ نہ ہوا
ہزار شکر سلامت ہے میرا سر اب بھی
ہزار دشمن جاں سے بھی دوستانہ ہوا
ذرا سی چوٹ پہ جھنکار گونج اٹھتی ہے
کہ ساز ٹوٹ گیا پھر بھی بے صدا نہ ہوا
کچھ اتنا سہل نہیں تھا ضمیر کا سودا
بلا سے میں کبھی اہل قبا ہوا نہ ہوا
عجب ہے یادوں کی بہتی ہوئی یہ خشک ندی
لہو کو آنکھ سے ٹپکے ہوئے زمانہ ہوا
غزل
میں دور ہو کے بھی اس سے کبھی جدا نہ ہوا
لطف الرحمن