EN हिंदी
مجھے تو جو بھی ملا ہے عذاب کی صورت | شیح شیری
mujhe to jo bhi mila hai azab ki surat

غزل

مجھے تو جو بھی ملا ہے عذاب کی صورت

لئیق عاجز

;

مجھے تو جو بھی ملا ہے عذاب کی صورت
مری حیات ہے اک تشنہ خواب کی صورت

ہواؤ دل کی طرف احتیاط سے جانا
وجود امن کا ہے قائم حباب کی صورت

ملامتیں غم و آلام فکر مایوسی
یہ زندگی ہے شکستہ کتاب کی صورت

خود اپنی کرگسی فطرت سے ہو گئے رسوا
وگرنہ تم بھی اٹھے تھے عقاب کی صورت

کبھی فلک تو سمندر کبھی اٹھا لایا
پسند دونوں کو ہے آفتاب کی صورت

شگفتگی کی جگہ جھریوں نے لے لی ہے
ہمارا چہرہ تھا عاجزؔ گلاب کی صورت