مجھے تو جو بھی ملا ہے عذاب کی صورت
مری حیات ہے اک تشنہ خواب کی صورت
ہواؤ دل کی طرف احتیاط سے جانا
وجود امن کا ہے قائم حباب کی صورت
ملامتیں غم و آلام فکر مایوسی
یہ زندگی ہے شکستہ کتاب کی صورت
خود اپنی کرگسی فطرت سے ہو گئے رسوا
وگرنہ تم بھی اٹھے تھے عقاب کی صورت
کبھی فلک تو سمندر کبھی اٹھا لایا
پسند دونوں کو ہے آفتاب کی صورت
شگفتگی کی جگہ جھریوں نے لے لی ہے
ہمارا چہرہ تھا عاجزؔ گلاب کی صورت

غزل
مجھے تو جو بھی ملا ہے عذاب کی صورت
لئیق عاجز