EN हिंदी
ترک جام و سبو نہ کر پائے | شیح شیری
tark-e-jam-o-subu na kar pae

غزل

ترک جام و سبو نہ کر پائے

لئیق عاجز

;

ترک جام و سبو نہ کر پائے
اس لیے ہم وضو نہ کر پائے

وقت آخر بھی حضرت ناصح
اپنا منہ قبلہ رو نہ کر پائے

اس کی رحمت کے سائبان میں تھا
میرا شک بھی عدو نہ کر پائے

مصلحت کی کھڑی تھی جو دیوار
دور اس کو کبھو نہ کر پائے

عمر بھر دوسروں کی فکر رہی
اپنا دامن رفو نہ کر پائے

ہائے مجبوریاں کہ اس کے حضور
پیش اپنا لہو نہ کر پائے

کر لی کمرے میں خودکشی عاجزؔ
اس سے جب گفتگو نہ کر پائے