EN हिंदी
مجھ میں اس میں حجاب تھا نہ رہا | شیح شیری
mujh mein usMein hijab tha na raha

غزل

مجھ میں اس میں حجاب تھا نہ رہا

لئیق عاجز

;

مجھ میں اس میں حجاب تھا نہ رہا
پہلے جو اضطراب تھا نہ رہا

کفر ہی دین بن گیا میرا
کفر میں جو حجاب تھا نہ رہا

لذت صبح و شام بھول گئے
دل جو بھن کر کباب تھا نہ رہا

بے حیائی کی اوڑھ لی چادر
پہلے وہ آب آب تھا نہ رہا

اس نے اب ساتھ میرا چھوڑ دیا
عشق میں کامیاب تھا نہ رہا

روز و شب چین سے گزرتے ہیں
وقت میں پیچ و تاب تھا نہ رہا

ہو گئے اس کے در کے پہرے دار
میرا جینا عذاب تھا نہ رہا

شام ہوتے ہی بجھ گیا عاجزؔ
ایک مفلس کا خواب تھا نہ رہا