زمانہ ڈھونڈ رہا تھا کدھر گیا پانی
کسی کا حکم ہوا تو ٹھہر گیا پانی
وہ دھوپ تھی کہ زمیں جل کے راکھ ہو جاتی
برس کے اب کے بڑا کام کر گیا پانی
بڑا غرور تھا اپنی چمک دمک پہ اسے
سنار نے جو تپایا اتر گیا پانی
خدا کا خوف نہیں اب تمہارے ذہنوں میں
توہمات کا اس طرح بھر گیا پانی
شکست خوردہ یہ قومیں تمہیں مٹا دیں گی
اگر تمہاری حمیت کا مر گیا پانی
ترس نہ آیا غریبوں کے حال پر عاجزؔ
سسکتے پودوں کے سر سے گزر گیا پانی
غزل
زمانہ ڈھونڈ رہا تھا کدھر گیا پانی
لئیق عاجز