EN हिंदी
نظر ملا نہ سکے اس سے اس نگاہ کے بعد | شیح شیری
nazar mila na sake us se is nigah ke baad

غزل

نظر ملا نہ سکے اس سے اس نگاہ کے بعد

کرشن بہاری نور

;

نظر ملا نہ سکے اس سے اس نگاہ کے بعد
وہی ہے حال ہمارا جو ہو گناہ کے بعد

میں کیسے اور کس سمت موڑتا خود کو
کسی کی چاہ نہ تھی دل میں تیری چاہ کے بعد

ہوس نے توڑ دی برسوں کی سادھنا میری
گناہ کیا ہے یہ جانا مگر گناہ کے بعد

ضمیر کانپ تو جاتا ہے آپ کچھ بھی کہیں
وہ ہو گناہ سے پہلے کہ ہو گناہ کے بعد

کٹی ہوئی تھیں طنابیں تمام رشتوں کی
چھپاتا سر میں کہاں تجھ سے رسم و راہ کے بعد

گواہ چاہ رہے تھے وہ بے گناہی کا
زباں سے کہہ نہ سکا کچھ خدا گواہ کے بعد