نظر ملا نہ سکے اس سے اس نگاہ کے بعد
وہی ہے حال ہمارا جو ہو گناہ کے بعد
میں کیسے اور کس سمت موڑتا خود کو
کسی کی چاہ نہ تھی دل میں تیری چاہ کے بعد
ہوس نے توڑ دی برسوں کی سادھنا میری
گناہ کیا ہے یہ جانا مگر گناہ کے بعد
ضمیر کانپ تو جاتا ہے آپ کچھ بھی کہیں
وہ ہو گناہ سے پہلے کہ ہو گناہ کے بعد
کٹی ہوئی تھیں طنابیں تمام رشتوں کی
چھپاتا سر میں کہاں تجھ سے رسم و راہ کے بعد
گواہ چاہ رہے تھے وہ بے گناہی کا
زباں سے کہہ نہ سکا کچھ خدا گواہ کے بعد
غزل
نظر ملا نہ سکے اس سے اس نگاہ کے بعد
کرشن بہاری نور