دھیما دھیما درد سہانا ہم کو اچھا لگتا تھا
دکھتے جی کو اور دکھانا ہم کو اچھا لگتا تھا
زخم کو اپنے پھول سمجھنا موتی کہنا اشکوں کو
عشق کا کاروبار سجانا ہم کو اچھا لگتا تھا
دن دن بھر آوارہ پھرنا ایک ہماری عادت تھی
رات گئے گھر لوٹ کے آنا ہم کو اچھا لگتا تھا
بیٹھ کے یاروں کی محفل میں پیتے رہنا دیر تلک
اپنے آپ کو بھول ہی جانا ہم کو اچھا لگتا تھا
چپ چپ رہنا آہیں بھرنا کچھ نہ کہنا لوگوں سے
تنہا تنہا اشک بہانا ہم کو اچھا لگتا تھا
شاخ سے ٹوٹے سوکھے پتے تیز ہوا کے شانوں پر
شہروں شہروں خاک اڑانا ہم کو اچھا لگتا تھا
شہر غم کی ایک اداسی دل میں ہر دم رہتی تھی
دیواروں سے سر ٹکرانا ہم کو اچھا لگتا تھا
گل بدنوں کو تکتے رہنا باتیں کرنا خوشبو کی
نگۂ گل کا قرض چکانا ہم کو اچھا لگتا تھا
نشۂ غم کی سرشاری بھی کم تو نہیں تھی پھر بھی ادیبؔ
تلخیٔ مے میں زہر ملانا ہم کو اچھا لگتا تھا
غزل
دھیما دھیما درد سہانا ہم کو اچھا لگتا تھا
کرشن ادیب