گو جام مرا زہر سے لبریز بہت ہے
کیا جانیے کیوں پینے سے پرہیز بہت ہے
شو کیس میں رکھا ہوا عورت کا جو بت ہے
گونگا ہی سہی پھر بھی دل آویز بہت ہے
اشعار کے پھولوں سے لدی شاخ تمنا
مٹی مرے احساس کی زرخیز بہت ہے
کھل جاتا ہے تنہائی میں ملبوس کی مانند
وہ رشک گل تر کہ کم آمیز بہت ہے
موسم کا تقاضہ ہے کہ لذت کا بدن چوم
خواہش کے درختوں میں ہوا تیز بہت ہے
آنکھوں میں لیے پھرتا ہے خوابوں کے جزیرے
وہ شاعر آشفتہ جو شب خیز بہت ہے
غزل
گو جام مرا زہر سے لبریز بہت ہے
کرشن ادیب