EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھیں میری
جی میں یہ کس کا تصور آ گیا

خواجہ میر دردؔ




کھل نہیں سکتی ہیں اب آنکھیں مری
جی میں یہ کس کا تصور آ گیا

خواجہ میر دردؔ




میں جاتا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑے
مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا

خواجہ میر دردؔ




مت جا تر و تازگی پہ اس کی
عالم تو خیال کا چمن ہے

خواجہ میر دردؔ




مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے

خواجہ میر دردؔ




نہ رہ جاوے کہیں تو زاہدا محروم رحمت سے
گنہ گاروں میں سمجھا کریو اپنی بے گناہی کو

خواجہ میر دردؔ




نہیں شکوہ مجھے کچھ بے وفائی کا تری ہرگز
گلا تب ہو اگر تو نے کسی سے بھی نبھائی ہو

خواجہ میر دردؔ