EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے

خواجہ میر دردؔ




درد تو جو کرے ہے جی کا زیاں
فائدہ اس زیان میں کچھ ہے

خواجہ میر دردؔ




درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں

خواجہ میر دردؔ




دل بھی اے دردؔ قطرۂ خوں تھا
آنسوؤں میں کہیں گرا ہوگا

خواجہ میر دردؔ




دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے
آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے

خواجہ میر دردؔ




دشمنی نے سنا نہ ہووے گا
جو ہمیں دوستی نے دکھلایا

خواجہ میر دردؔ




ایک ایمان ہے بساط اپنی
نہ عبادت نہ کچھ ریاضت ہے

خواجہ میر دردؔ