EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

نے گل کو ہے ثبات نہ ہم کو ہے اعتبار
کس بات پر چمن ہوس رنگ و بو کریں

خواجہ میر دردؔ




قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے

خواجہ میر دردؔ




قتل سے میرے وہ جو باز رہا
کسی بد خواہ نے کہا ہوگا

خواجہ میر دردؔ




قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا

خواجہ میر دردؔ




رات مجلس میں ترے حسن کے شعلے کے حضور
شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا

خواجہ میر دردؔ




روندے ہے نقش پا کی طرح خلق یاں مجھے
اے عمر رفتہ چھوڑ گئی تو کہاں مجھے

خواجہ میر دردؔ




ساقی مرے بھی دل کی طرف ٹک نگاہ کر
لب تشنہ تیری بزم میں یہ جام رہ گیا

خواجہ میر دردؔ