اگر یوں ہی یہ دل ستاتا رہے گا
تو اک دن مرا جی ہی جاتا رہے گا
میں جاتا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑے
مری یاد تجھ کو دلاتا رہے گا
گلی سے تری دل کو لے تو چلا ہوں
میں پہنچوں گا جب تک یہ آتا رہے گا
جفا سے غرض امتحان وفا ہے
تو کہہ کب تلک آزماتا رہے گا
قفس میں کوئی تم سے اے ہم صفیرو
خبر گل کی ہم کو سناتا رہے گا
خفا ہو کے اے دردؔ مر تو چلا تو
کہاں تک غم اپنا چھپاتا رہے گا
غزل
اگر یوں ہی یہ دل ستاتا رہے گا
خواجہ میر دردؔ