سمجھنا فہم گر کچھ ہے طبیعی سے الٰہی کو
شہادت غیب کی خاطر تو حاضر ہے گواہی کو
نہیں ممکن کہ ہم سے ظلمت امکان زائل ہو
چھڑا دے آہ کوئی کیوں کے زنگی سے سیاہی کو
عجب عالم ہے ایدھر سے ہمیں ہستی ستاتی ہے
ادھر سے نیستی آتی ہے دوڑی عذر خواہی کو
نہ رہ جاوے کہیں تو زاہدا محروم رحمت سے
گنہ گاروں میں سمجھا کریو اپنی بے گناہی کو
نہ لازم نیستی اس کو نہ ہستی ہی ضروری ہے
بیاں کیا کیجیے اے دردؔ ممکن کی نناہی کو
غزل
سمجھنا فہم گر کچھ ہے طبیعی سے الٰہی کو
خواجہ میر دردؔ