EN हिंदी
سانس کی آنچ ذرا تیز کرو | شیح شیری
sans ki aanch zara tez karo

غزل

سانس کی آنچ ذرا تیز کرو

عادل منصوری

;

سانس کی آنچ ذرا تیز کرو
کانچ کا جسم پگھل جانے دو

لام خالی ہے اسے مت چھیڑو
نون کے پیٹ میں نقطہ دیکھو

رات کے پردے الٹتے جاؤ
چاند کا جسم برہنہ بھی ہو

سر اٹھاؤ نہ کنار دریا
موج کو سر سے گزر جانے دو

خودبخود شاخ لچک جائے گی
پھل سے بھرپور تو ہو لینے دو

آنکھ کھلتے ہی یہ آواز آئی
چور گھس آیا ہے گھر میں پکڑو

انگلیاں چاٹتے رہ جاؤ گے
تم کبھی اپنا لہو چکھ دیکھو

موت سڑکوں پہ پھرا کرتی ہے
گھر سے نکلو تو سنبھل کر نکلو

کون اب شعر کہے نظم لکھے
شہر ہی چھوڑ گئی جب زیبو

تم کو دعویٰ ہے سخن فہمی کا
جاؤ غالبؔ کے طرف دار بنو

کل وہ عادلؔ سے یہ فرماتے تھے
شاعری چھوڑ کے شادی کر لو