وہ تم تک کیسے آتا
جسم سے بھاری سایہ تھا
سارے کمرے خالی تھے
سڑکوں پر بھی کوئی نہ تھا
پیچھے پیچھے کیوں آئے
آگے بھی تو رستہ تھا
کھڑکی ہی میں ٹھٹھر گئی
کالی اور چوکور ہوا
دیواروں پر آئینے
آئینوں میں سبز خلا
بیٹھی تھی وہ کرسی پر
دانتوں میں انگلی کو دبا
بوٹی بوٹی جلتی تھی
اس کا بدن انگارا تھا
تے کے اوپر دو نقطے
بے کے نیچے اک نقطہ
چائے میں اس کے پستاں تھے
میرا بدن پانی میں تھا
تنہائی کی رانوں میں
صبح تلک میں قید رہا
عادلؔ اب شادی کر لو
ستائیسواں ختم ہوا
غزل
وہ تم تک کیسے آتا
عادل منصوری