تمام ہجر اسی کا وصال ہے اس کا
میں جی رہا ہوں مگر جان و مال ہے اس کا
وہ زینہ زینہ اترنے لگے تو سب بجھ جائے
وہ بام پر ہے تو سب ماہ و سال ہے اس کا
میں قتل ہو کے بھی شرمندہ اپنے آپ سے ہوں
کہ اس کے بعد تو سارا زوال ہے اس کا
اگل رہی ہیں خزانے کھلی ہوئی آنکھیں
خبر کرو کہ یہ سر پائمال ہے اس کا
ہزار سال سے ہوں تشنۂ سوال و جواب
میں اتنا پیاسا ہوں سونا محال ہے اس کا
اٹھائے ہاتھ تو انگڑائی استعارہ بنے
وہ تاب و تب ہے کہ ہر دل غزال ہے اس کا
قدم قدم شجر سایہ دار پیدا ہے
کہ میرے ساتھ سفر میں خیال ہے اس کا
وہ لے کے آیا ہے اپنی سرشت میں شبنم
سفر بھی جانب باد شمال ہے اس کا
نگاہ اٹھے تو شائستۂ جنوں ہو جائیں
ہوس کو صید کرے وہ جمال ہے اس کا
خبر نہیں تھی کہ یوں اس میں ڈوب جائیں گے
ہمارے چہرے پہ رنگ ملال ہے اس کا
کبھی کبھی تو بڑے زور سے دھڑکتا ہے
یہ میرا دل نہیں کوئی کمال ہے اس کا
جو آیا ہجر کا موسم تو کیا کریں گے ہم
جو تجربے میں نہیں وہ سوال ہے اس کا
غزل
تمام ہجر اسی کا وصال ہے اس کا
ابو الحسنات حقی