EN हिंदी
دل کو ہم دریا کہیں منظر نگاری اور کیا | شیح شیری
dil ko hum dariya kahen manzar-nigari aur kya

غزل

دل کو ہم دریا کہیں منظر نگاری اور کیا

ابو الحسنات حقی

;

دل کو ہم دریا کہیں منظر نگاری اور کیا
پرسش احوال آقا کم عیاری اور کیا

اپنے منظر سے الگ ہوتا نہیں ہے کوئی رنگ
اپنی آنکھوں کے سوا باد بہاری اور کیا

ہم بھی کچھ کہتے پر اس کی گفتگو کا سلسلہ
ختم ہوتا ہی نہیں ہے ہوشیاری اور کیا

سب اٹھا کر لے گئیں میری جنوں سامانیاں
اب ستائے گی ہمیں بے اختیاری اور کیا

میری وحشت بھی سکوں نا آشنا میری طرح
میرے قدموں سے بندھی ہے ذمہ داری اور کیا

اس زیاں خانے میں ملتی ہی نہیں داد فراق
ضبط کا پیغام دے گی سوگواری اور کیا

جی میں آ جائے تو ہم بھی مسکرا کر دیکھ لیں
آنکھ پھر پہروں نہ کھولیں شہریاری اور کیا

حقئؔ بیچارہ آخر تھک تھکا کر سو گیا
اپنے زخموں کی وہ کرتا پردہ داری اور کیا