شب کو ہر رنگ میں سیلاب تمہارا دیکھیں
آنکھ کھل جائے تو دریا نہ کنارا دیکھیں
دشت آغوش میں رم خوردہ چکارا دیکھیں
یہ حسیں خواب بھی اک روز قضارا دیکھیں
جانے کیا صورت حالات رقم تھی اس میں
جو ورق چاک ہوا اس کو دوبارا دیکھیں
نیند آئے بھی تو تسبیح بدن کرتے ہوئے
اور پھر ساتھ اٹھیں صبح کا تارا دیکھیں
دیکھتے دیکھتے گم ہوگئے جل تھل سے وہ لوگ
عیش کو چاک کریں درد کو پیارا دیکھیں
غزل
شب کو ہر رنگ میں سیلاب تمہارا دیکھیں
ابو الحسنات حقی