آئینہ رو بہ رو رکھ اور اپنی چھب دکھانا
کیا خود پسندیاں ہیں کیا خود نمائیاں ہیں
تاباں عبد الحی
آئنے کو تری صورت سے نہ ہو کیوں کر حیرت
در و دیوار تجھے دیکھ کے حیران ہے آج
تاباں عبد الحی
آتا ہے محتسب پئے تعزیر مے کشو
پگڑی کو اس کی پھینک دو داڑھی کو لو اکھاڑ
تاباں عبد الحی
آتا نہیں وہ یار ستم گر تو کیا ہوا
کوئی غم تو اس کا دل سے ہمارے جدا نہیں
تاباں عبد الحی
آتش عشق میں جو جل نہ مریں
عشق کے فن میں وہ اناری ہیں
تاباں عبد الحی
اگر تو شہرۂ آفاق ہے تو تیرے بندوں میں
ہمیں بھی جانتا ہے خوب اک عالم میاں صاحب
تاباں عبد الحی
اے مرد خدا ہو تو پرستار بتاں کا
مذہب میں مرے کفر ہے انکار بتاں کا
تاباں عبد الحی
بعد مدت کے ماہرو آیا
کیوں نہ اس کے گلے لگوں تاباںؔ
تاباں عبد الحی
برا نہ مانیو میں پوچھتا ہوں اے ظالم
کہ بے کسوں کے ستائے سے کچھ بھلا بھی ہے
تاباں عبد الحی