EN हिंदी
غیر کے ہاتھ میں اس شوخ کا دامان ہے آج | شیح شیری
ghair ke hath mein us shoKH ka daman hai aaj

غزل

غیر کے ہاتھ میں اس شوخ کا دامان ہے آج

تاباں عبد الحی

;

غیر کے ہاتھ میں اس شوخ کا دامان ہے آج
میں ہوں اور ہاتھ مرا اور یہ گریبان ہے آج

لٹپٹی چال کھلے بال خماری انکھیاں
میں تصدق ہوں مری جان یہ کیا آن ہے آج

کب تلک رہیے ترے ہجر میں پابند لباس
کیجیے ترک تعلق ہی یہ ارمان ہے آج

آئنے کو تری صورت سے نہ ہو کیوں کر حیرت
در و دیوار تجھے دیکھ کے حیران ہے آج

آشیاں باغ میں آباد تھا کل بلبل کا
ہائے تاباںؔ یہ سبب کیا ہے کہ ویران ہے آج