رویا نہ ہوں جہاں میں گریباں کو اپنے پھاڑ
ایسا نہ کوئی دشت ہے ظالم نہ کوئی اجاڑ
آتا ہے محتسب پئے تعزیر مے کشو
پگڑی کو اس کی پھینک دو داڑھی کو لو اکھاڑ
ثابت تھا جب تلک یہ گریباں خفا تھا میں
کرتے ہی چاک کھل گئے چھاتی کے سب کواڑ
میرے غبار نے تو ترے دل میں کی ہے جا
گو میری مشت خاک سے دامن کی تئیں تو جھاڑ
تاباںؔ زبس ہوائے جنوں سر میں ہے مرے
اب میں ہوں اور دشت ہے یہ سر ہے اور پہاڑ
غزل
رویا نہ ہوں جہاں میں گریباں کو اپنے پھاڑ
تاباں عبد الحی